ایک بزرگ نے دیکھا ان کاہمسایہ مجوسی جنت میں تھا تو وہ بہت حیران ہوئے اور اس سے پوچھا کہ تو جنت میں کیسے تو اس نے کہا
نزہتہ المجالس‘‘ کتاب میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک مجوسی تھا‘ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان غالب تھے‘ مگر کفار ان کے درمیان رہتے تھے‘ ایک مرتبہ مجوسی کے بیٹے نے رمضان المبارک کے دنوں میں کھانا کھایا‘ جب اس نے کھلے عام کھانا کھایا تو اس مجوسی کو بہت غصہ آیا‘ اس نے بیٹے کو ڈانٹ ڈپٹ کی کہ تجھے حیا نہیں آتی کہ یہ مسلمانوں کا مقدس مہینہ ہے وہ دن میں روزہ رکھتے ہیں اور تو دن میں اس طرح کھلے عام کھا رہا ہے‘ خیر بات آئی گئی ہو گئی۔۔جاری ہے ۔
اس مجوسی کے پڑوسپڑوس میں ایک بزرگ رہتے تھے‘ جب اس مجوسی کا انتقال ہو گیا تو ان بزرگ نے اس کو خواب دیکھا کہ وہ مجوسی جنت کی بہاروں میں ہے‘ وہ بڑے حیران ہوئے اس سے پوچھنے لگے کہ آپ تو مجوسی تھے اور میں آپ کو جنت میں دیکھ رہا ہوں وہ جواب میں کہنے لگے کہ ایک مرتبہ میرا بیٹا رمضان المبارک میں کھلے عام کھانا کھا رہااور میں نے رمضان المبارک کے ادب کی وجہ سے اس کو ڈانٹا تھا‘ اللہ تعالیٰ کو میرا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ موت کے وقت مجھے کلمہ نصیب فرما دیا‘ اس طرح مجھے اسلام پر موت آئی اور اب میں جنت کے مزے لے رہا ہوں۔علامہ انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ اور کتاب کا ادب مفتی ہند حضرت کفایت اللہ صاحب نے ایک مرتبہ طلباء سے پوچھا کہ بتاؤ انور شاہ کشمیری رحمتہ اللہ علیہ کیسے بنے؟۔جاری ہے ۔
اب جس کو تفسیر کے ساتھ زیادہ شغف تھا اس نے کہا کہ بڑے مفسر تھے جس کو حدیث پاک کے ساتھ زیادہ شغف تھا‘ اسنے کہا کہ محدیث تھے جن کو اشعار کے ساتھ زیادہ دلچسپی تھی اس ن ے کہا کہ ان کا کلام بڑا اعلیٰ تھا‘ حضرت خاموش رہے طلباء نے کہا کہ حضرت آپ ہی بتا دیجئے۔ انہوں نے فرمایا‘ میں کیا بتاؤں یہ سوال خود ان سے پوچھا گیا کہ حضرت! آپ انور شاہ کشمیری کیسے بنے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علم کے اور کتاب کے ادب کی وجہ سے علامہ انور شاہ کشمیری بنا دیا اور ادب کتنا فرماتے تھے کہ اگر حدیث پاک کی کتاب پڑی ہے اور مطالعہ کر رہے ہیں اور حالیہ پڑھ رہے ہیں تو حاشیہ کا رخ بدل کر اور خود بیٹھ کر حاشیہ کو نہیں بدلتے تھے بلکہ اٹھ کر دوسری طرف آتے اور پھر حاشیہ کا مطالعہ کیا کرتے تھے‘ اور فرماتے تھے۔جاری ہے ۔
کہ میں نے کبھی کسی کتاب کو بے وضو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ حدیث کی کتاب کو بھی بے وضو ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں کتابوں کے رکھنے میں بھی خیال کرتا تھا‘ کبھی میں نے قرآن پاک کے اوپر تفسیر نہیں رکھی‘ تفسیر کے اوپر حدیث کی کتاب نہیں رکھی۔ حدیث کی کتاب کے اوپر فقہ کی کتاب نہیں رکھی‘ فقہ کی کتاب کے اوپر میں نے تاریخ کی کتاب نہیں رکھی میں کتابوں کے رکھنے میں بھی ان کے درجات کا خیال رکھتا تھا اس ادب کی وجہ سے پروردگار نے قبولیت عطا فرمائی۔
No comments:
Post a Comment