جو دل نشیں تھے ہم کو اشارے بدل گئے
انداز دیکھنے کے تمہارے بدل گئے
دیتے سبق تھے ہم کو وفا کا جو ہر گھڑی
کیوں مہرباں ہمارے وہ پیارے بدل گئے
جن کو سمجھ رہا تھا کہ ہیں قافلہ مرا
مشکل میں اپنا رستہ وہ سارے بدل گئے
اک عمر ڈوب کر جو کبھی پار ہم لگے
امید جن سے تھی وہ کنارے بدل گئے
رہتے تھے جن کے بیچ کبھی چاند کی طرح
ٹوٹا یوں آسماں کہ وہ تارے بدل گئے
جس آنکھ سے تھا سیکھا اِن آنکھوں نے بولنا
اُس کے بھی یک بہ یک ہی اشارے بدل گئے
کتنا بھی سوچ لیجے مگر فیصلہ نہ ہو
نظریں بدل گئیں یا نظارے بدل کئے
الزام وقت پر بھی تو کچھ دیجئے جناب
سب نام لے کے جس کا ہمارے بدل گئے
اُن سے جواب چاہئے ابرک ہمیں یہ بس
کب لڑکھڑائے ہم کہ سہارے بدل گئے
انداز دیکھنے کے تمہارے بدل گئے
دیتے سبق تھے ہم کو وفا کا جو ہر گھڑی
کیوں مہرباں ہمارے وہ پیارے بدل گئے
جن کو سمجھ رہا تھا کہ ہیں قافلہ مرا
مشکل میں اپنا رستہ وہ سارے بدل گئے
اک عمر ڈوب کر جو کبھی پار ہم لگے
امید جن سے تھی وہ کنارے بدل گئے
رہتے تھے جن کے بیچ کبھی چاند کی طرح
ٹوٹا یوں آسماں کہ وہ تارے بدل گئے
جس آنکھ سے تھا سیکھا اِن آنکھوں نے بولنا
اُس کے بھی یک بہ یک ہی اشارے بدل گئے
کتنا بھی سوچ لیجے مگر فیصلہ نہ ہو
نظریں بدل گئیں یا نظارے بدل کئے
الزام وقت پر بھی تو کچھ دیجئے جناب
سب نام لے کے جس کا ہمارے بدل گئے
اُن سے جواب چاہئے ابرک ہمیں یہ بس
کب لڑکھڑائے ہم کہ سہارے بدل گئے
No comments:
Post a Comment