04 July 2017

کب لڑکھڑائے ہم کہ سہارے بدل گئے

جو دل نشیں تھے ہم کو اشارے بدل گئے
انداز دیکھنے کے تمہارے بدل گئے

دیتے سبق تھے ہم کو وفا کا جو ہر گھڑی
کیوں مہرباں ہمارے وہ پیارے بدل گئے

جن کو سمجھ رہا تھا کہ ہیں قافلہ مرا
مشکل میں اپنا رستہ وہ سارے بدل گئے

اک عمر ڈوب کر جو کبھی پار ہم لگے
امید جن سے تھی وہ کنارے بدل گئے

رہتے تھے جن کے بیچ کبھی چاند کی طرح
ٹوٹا یوں آسماں کہ وہ تارے بدل گئے

جس آنکھ سے تھا سیکھا اِن آنکھوں نے بولنا
اُس کے بھی یک بہ یک ہی اشارے بدل گئے

کتنا بھی سوچ لیجے مگر فیصلہ نہ ہو
نظریں بدل گئیں یا نظارے بدل کئے

الزام وقت پر بھی تو کچھ دیجئے جناب
سب نام لے کے جس کا ہمارے بدل گئے

اُن سے جواب چاہئے ابرک ہمیں یہ بس
کب لڑکھڑائے ہم کہ سہارے بدل گئے

No comments:

Post a Comment

حفاظت