وہ بولتی کچھ بھی نہیں

خود کو پردوں میں چھپاتی ہے۔
’’وہ بولتی کچھ بھی نہیں
ہنستی مسکراتی ہے
نہ اب کِھلکھلاتی ہے
وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے
ڈر ڈر سی جاتی ہے
خود کو پردوں میں چھپاتی ہے
وہ بولتی کچھ بھی نہیں
سُنا ہے
کسی اعلیٰ گھرانے کے
کسی اچھے عہدے کے
لڑکے نے
اُسے مسل ڈالا تھا
انصاف کی عدالت میں
کچھ نوٹوں کے بدلے میں
انصاف کچل ڈالا تھا
اُس کے مجبور بابا نے
باقی بیٹیوں کی خاطر
مجرم معاف کردیا تھا
تب ہی سے
وہ بولتی کچھ بھی نہیں
بس آنسو بہاتی ہے‘‘